تحریر: علامہ حسن ظفر نقوی
چھٹی محرم الحرام بروز پیر کو خولی ابن یزید اصبحی کو دس ہزار،کعب ابن الحرو کو تین ہزار اور حجاج ابن حر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ چھوٹے بڑے اور کئی لشکر ارسال کرنے کے بعد ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو لکھا کہ: تجھے اسی ہزار کوفیوں کا لشکر بھیج چکا ہوں ان میں حجازی اور شامی شامل نہیں ہیں۔ تجھے چاہئے کہ بلا حیلہ و حوالہ حسین کو قتل کر دے۔
اسی تاریخ کو خوبی ابن یزید نے ابن زیاد کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں عمر ابن سعد کے لیے لکھا کہ یہ امام حسین (ع) سے رات کو چھپ کر ملتا ہے اور ان سے بات چیت کیا کرتا ہے۔
ابن زیاد نے اس خط کو پاتے ہی عمر سعد کے نام ایک خط لکھا کہ :مجھے تیری تمام حرکتوں کی اطلاع ہے تو چھپ کر باتیں کرتا ہے۔دیکھ میرا خط پاتے ہی امام حسین (ع) پر پانی بند کر دے اور انھیں جلد سے جلد موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کر۔
یزیدی فوج کے لشکروں کی کربلا میں آمد ٩ محرم کی شام تک جاری رہی -
کوفہ کا منظر یہ تھا کہ باب کوفہ سے ایک لشکر برآمد ہوتا جو طبل جنگ اور دیگر آلات موسیقی بجاتا ہوا اور مختلف رنگوں کے جھنڈے اور مختلف قسموں کا اسلحہ لہراتا نکلتا اور ابھی پوری طرح سے کوفہ سے برآمد بھی نہ ہوا ہوتا کہ پیچھے پیچھے دوسرا لشکر برآمد ہو جاتا- کوفہ میں ہر طرف یزیدی فوج کی بھرتیاں کھلی ہوئی تھیں اور لوگوں کو جبراً اور مختلف اقسام کے لالچ دے کر فوج میں بھرتی کیا جا رہا تھا -
لوہار ہتیار بنانے اور انھیں تیز کرنے میں دن رات مصروف تھے- ایک کے بعد ایک لشکر کوفہ سے روانہ ہو رہا تھا -
کوفہ سے جہاں مختلف قبائل کے جنگ آزما کربلا بھیجے جا رہے تھے وہیں تاجر پیشہ اور دوکاندار بھی فوجیوں کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے اپنا سامان اٹھاے کربلا کی طرف رواں دوں تھے - گھوڑوں کی نعلیں لگانے والے- تندورچی اور کھانا پکانے والے، طبیب، جراح، لوہار، ترکھان اور دیگر اشیا ضروریات فروخت کرنے والے شامل تھے-
٦ محرم کی رات کو ابن سعد نے حضرت خزیمہ خزیمی (کچھ منابع میں ان کا نام شہدا کربلا میں شمار کیا گیا ہے- ابن زیاد کے ساتھ کربلا آے تھے لیکن پھر ابن زیاد کو چھوڑ کر امام کے ساتھ شامل ہو گئے) کو امام علیہ السلام کی طرف بھیجا تاکہ امام کے کربلا آنے کا سبب دریافت کیا جا سکے-
حضرت خزیمہ، امام کی خدمت میں تشریف لاے اور امام علیہ السلام کے کربلا آنے کا مقصد دریافت کیا- امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تم ہی لوگوں نے تو خطوط لکھ کر ہمیں بلایا تھا- یہ مذاکرات کافی دیر تک چلتے رہے- ان مذکرات نے خزیمہ کی کایا پلٹ دی- اور آپ نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور امام کے ساتھ رہ گئے-
کربلا میں یزیدی فوج کے لشکروں کی آمد دیکھ کر حضرت حبیب ابن مظاہر نے امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا:
میرا قبیلہ بنی اسد یہاں قریب ہے - اگر آپ حکم دیں تو میں ان کے پاس جاتا ہوں اور ان سے نذرت طلب کرتا ہوں-
امام نے اجازت دے دی- جب رات ہوئی تو حبیب چھپتے چھپاتے اس قبیلے تک جا پہنچے- جب انہوں نے حبیب کو دیکھا تو کہا کیا بات ہے؟ آپ اس وقت خیریت سے آے ہیں ؟
حبیب نے ان کو بتایا کہ فرزند رسول اس وقت کربلا میں ہیں اور ان کا خانوادہ بھی ہمراہ ہے - مومنین کی ایک جماعت بھی ان کے ساتھ ہے- ان کا ایک آدمی ایک ہزار پر بھاری ہے- ابن سعد کے لشکر نے ان کو گھیر رکھا ہے- تم میرے قبیلے کے لوگ ہو اور مجھ پر واجب ہے کہ میں تمہیں نصیحت کروں- تم لوگ میری بات مانو اور امام کی نصرت کرو اور میرے ساتھ ان تک چلو اور دنیا اور آخرت کا شرف حاصل کرو - خدا کی قسم! جو کوئی ان کی نصرت میں شہید ہوگا بہشت کے اعلیٰ ترین درجات تک رسائی حاصل کرے گا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہوگا-
عبداللہ بن بشر نے کہا: میں پہلا شخص ہوں جو اس دعوت پر لبّیک کہتا ہوں - اور فرزند رسول (ص) پر اپنی جان نچھاور کروں گا -
اس کے بعد بنو اسد کے لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے اور ان میں سے ہر ایک نے دوسرے پر سبقت کا مظاہرہ کیا- اس طرح نوے آدمی اکٹھے ہو گئے اور امام کی مدد کے لئے چل پڑے- ان ہی لوگوں میں سے ایک منافق نے ایک آدمی کو عمر ابن سعد کی طرف روانہ کیا جس نے وہاں پہنچ کر اس صورت حال سے ابن سعد کو آگاہ کیا -
ابن سعد نے فوراً ازرق نامی شخص کی کمان میں چار سو سواروں کا دست روانہ کیا کہ وہ بنو اسد کا راستہ روکیں- یہ سوار تیزی سے اس طرف بڑھے جس طرف سے حبیب ان لوگوں کو لا رہے تھے - دریا فرات کے کنارے ان دونوں دستوں کی مڈ بھیڑ ہوگئی - کچھ دیر مقابلہ ہوا مگر بنو اسد تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے جم نہ سکے اور واپس چلے گئے- حبیب نے ازرق کو پکار کر کہا - اے ازرق تجھ پر افسوس ہے کہ تو اپنے آپ کو بچا اور اس جگہ کی بجے تجھے کہیں اور ہونا چاہیے تھا- لیکن اس مردود پر کوئی اثر نہ ہوا - جب سارے بنو اسد واپس چلے گئے تو حبیب نے خود کو بڑی مشکل سے امام تک پہنچایا اور سارا واقعہ بیان کیا -
امام نے ساری تفصیل سن کر فرمایا:لا حول ولا قوة إلا بالله
حوالہ:
ناسخ التواریخ، قمقام ذخار، مقتل خوارزمی